Pages

Monday, May 11, 2015

’اس تھپڑ کی گونج پوری زندگی سنائی دے گی‘



ھپڑ کی گونج بھی ہو سکتی ہے یہ ہمیں سب سے پہلے بتایا ڈاکٹر ڈینگ نے۔ سنہ 1986 میں سبھاش گھئی کی فلم ’کرما‘ میں جب دلیپ کمار کے تھپڑ کا جواب انوپم كھیر نے کچھ یوں دیا ’ڈاکٹر ڈینگ کو آج پہلی بار کسی نے تھپڑ مارا ہے ۔۔۔ فرسٹ ٹائم ۔۔۔ اس تھپڑ کی گونج سنی تم نے ۔۔۔ اس گونج کی گونج تمہیں سنائی دے گی ۔۔۔ پوری زندگی سنائی دے گی‘۔
بچپن میں شاید ہی کوئی ہفتہ گزرتا تھا جب تھپڑ نہ پڑا ہو۔ گھر میں، سکول میں، سکول سے واپس آکر پھر سے گھر میں ۔۔۔ سلسلہ چلتا ہی رہتا تھا اور بیچ بیچ میں نصیحت بھی مل جاتی تھی ’بیٹا یہ تمہارے بھلے کے لیے کر رہے ہیں!‘
اب کیوں پڑتے تھے یہ تھپڑ وہ رہنے دیں!
لیکن ڈاکٹر ڈینگ کو سننے کے بد افسوس اس بات کا رہا کہ ان ہفتہ وار تھپپڑوں میں مجھے گونج کبھی نہیں سنائی دی یا پھرشاید سننا نہیں آتا تھا۔
زندگی فاسٹ فارورڈ ہوئی، 24/7 میڈیا کا زمانہ آیا اور پھر اچانک سے تھپڑوں کی گونج سنائی دینے لگی۔ خوش قسمت رہا کہ یہ تھپڑ دوسرے کے گالوں پر پڑ رہے تھے۔
سیاسی تھپڑ، رومانٹک تھپڑ، سڑك چھاپ تھپڑ، بلبل پانڈے کاتھپڑ سب کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔
ایک ٹی وی رپورٹر کو ایک سیاسی لیڈر نے تھپڑ مارا، گونج دورتک گئی (آج وہ رپورٹر عام آدمی پارٹی کے لیڈر ہیں)۔ کیجریوال صاحب کو آٹو والے نے تھپڑ رسيد کر دیا، سوشل میڈیا کےزمانے میں گونج پورے ملک میں پھیلی، آج وہ دہلی کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ شرد پوار ہوں، اوما بھارتی ہوں، میکا ہوں، راکھی ساونت ہوں تھپڑ کھانے والے اور لگانے والے تمام اس گونج کے قائل رہے ہیں۔
لیکن گزشتہ ہفتے امریکہ کے بالٹيمور شہر میں، جہاں سياہ فام نوجوان پولیس کی زیادتیوں کے خلاف ہنگامہ کر رہے تھے، دکانوں کو لوٹ رہے تھے، ایک ماں نے اپنے بیٹے کو جو تھپڑ مارا وہ صحیح معنوں میں ’تھپڑ آف دی سنچری‘ کہلائے گا۔
صاحبزادے سکول سے لوٹتے ہوئے ہوڈي پہن کر، چہرے پر نقاب لگائے پولیس اور دکانوں پر پتھر برسا رہے تھےآ تبھی ان کی ماں کی نظر ان پر پڑ گئی۔ ماں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، تھپڑ لگاتے ہوئےگھسیٹتے ہوئے گھر لے گئی اور ینگ اینگري مین دم دبائے ماں کے ساتھ ہو لیا۔
لیکن اس تھپڑ کو صرف بالٹيمور نے نہیں، ٹی وی پر پوری دنیانے دیکھا۔ آخر امریکہ ہے بھائی، چھوٹی سی بات بھی ہو تو پوری دنیا دیکھتی ہے اور اس کی گونج ایسی کہ ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔
ٹی وی چینلز ماں اور بیٹے دونوں ہی کو بار بار کیمرے پر بلا رہے ہیں۔ کئی بار سوال بھی اپنے دیسی میڈیا والی سٹائل میں ہی پوچھ رہے ہیں ۔۔۔ ’جب آپ نے تھپڑ مارا تو کیسا لگا، جب آپ کوتھپپڑ لگا تو کیسا لگا‘، وغیرہ وغیرہ۔
سفید فام دائیں بازو والے طبقے کے لیے تو یہ يوریكا مومنٹ تھا یعنی ان کی نظر میں ایک تھپڑ نے کالوں کی حالت بہتر کرنےکا حل نکال دیا۔ یہ امریکی ایک آواز میں اس کی ماں کو ’موم آف دی ايئر‘ کا خطاب دینے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ آخر کیوں؟
کیونکہ ان کی مانیں تو خرابی سفید لوگوں یا پولیس میں نہیں ہے، نسل پرستی نام كي کوئی چڑیا ہے ہی نہیں، تمام برائیوں کی جڑ سياہ فام قوم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ساری مائیں ایسی ہو جائیں تو امریکہ سے جرم ختم ہو جائے گا، سیاہ نوجوان راستے پر آ جائیں گے اور پولیس کو سختی کرنی ہی نہیں پڑےگی۔
ریپبلكن پارٹی کی طرف سے صدارتي امیدواروں میں سے ایک ٹیڈ كروز کا بیان ہے کہ سیاہ فام نوجوانوں کے ساتھ یہ سب باتیں اس لیے ہوتی ہیں کیونکہ ان کے گھر میں باپ نہیں ہوتے، سنگل مدرز یعنی مرد کے بغیر گھر چلانے والي خواتين ان پر نظرنہیں رکھ پاتی ہیں۔
اب ٹیڈ کروز صاحب سے کون کہے کہ ان علاقوں میں زیادہ تر مرد جوانی میں قدم رکھتے ہی چھوٹے چھوٹے جرم کے لیے بھی جیل میں بند کر دیے جاتے ہیں اور ایک بار اندر گئے تو پھرسلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ انہیں جرائم کے لیے سفید فام نوجوان کو پولیس ڈانٹ کر یا پھر ’جوانی میں ہم سب نےایسا کیا ہے‘ کہہ کر چھوڑ دیتی ہے۔
سفید فاموں میں بائیں بازو والا طبقہ یا پھر اعتدال پسند طبقہ، جو سياہ فام قوم کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتا ہے، حکومت کی ذمہ داری کی بات کرتا ہے۔ وہ نسل پرستی کی بات کرتا ہے اور یہ طبقہ منقسم ہے کہ تھپڑ مارنا درست تھا یا نہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ بچّے کو اس طرح سب کے سامنے ذلیل نہیں کرناچاہیے تھا، نہ جانے اس پر کیا اثر پڑے گا۔
اب اثر جو بھی ہو، یہ طے ہے کہ اس نوجوان کو ڈاکٹر ڈینگ کےلفظوں میں ’اس تھپڑ کی گونج پوری زندگی سنائی دے گی‘۔