Pages

Thursday, March 31, 2011

Cuba President Raul Castro Meet Pop Fransis in Vategen Said that i can be possible that i can accept my birth religion .

  •  11 مئ 2015
 
کیوبا کے انقلاب کے رہنما کا مذاق میں بھی یہ کہنا کہ وہ چرچ واپس جا سکتے ہیں ظاہر کرتا ہے کہ کیوبا اور ویٹیکن کے درمیان حالیہ زمانے میں تعلقات کتنے آگے بڑھے ہیں
کیوبا کے صدر راؤل کاسترو نے کہا ہے کہ ویٹیکن میں پوپ فرانسس سے ایک ملاقات کے دوران وہ اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ شاید اپنے پیدائشی مذہب کو پھر سے اختیار کر لیں۔
مسٹر کاسترو نے پوپ کی دانائی کی بھرپور تعریف کرتے ہوئے کہا ’میں پھر عبادت شروع کر رہا ہوں اور اگر پوپ کی مہربانیاں یونہی جاری رہیں تو چرچ کا رخ بھی کر لوں گا۔‘
کیوبا کے صدر نے ان کے ملک اور امریکہ کے درمیان صلح کرانے پر پوپ کا شکریہ ادا کیا۔ صدر کاسترو روس میں دوسری عالمی جنگ کی فتح کی تقریبات میں شرکت کے لیے ماسکو گئے تھے جہاں سے واپس جاتے ہوئے وہ ویٹیکن رکے۔
انیس سو انسٹھ میں انقلاب کے بعد سے اب تک کیتھولک چرچ نے ہوانا کے ساتھ تعلقات استوار رکھے ہیں۔ پوپ اس سال ستمبر میں امریکہ جاتے ہوئے کیوبا کا دورہ بھی کریں گے۔
ہوانا میں بی بی سی کے نامہ نگار وِل گرانٹ نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ کیوبا کے انقلاب کے رہنما کا مذاق میں بھی یہ کہنا کہ وہ چرچ واپس جا سکتے ہیں ظاہر کرتا ہے کہ کیوبا اور ویٹیکن کے درمیان حالیہ زمانے میں تعلقات کتنے آگے بڑھے ہیں۔
اور جب سے پوپ فرانسس ویٹیکن میں آئے ہیں اس وقت سے خاص طور پر صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔ پہلے تو پوپ نے گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران امریکہ اور کیوبا کے تعلقات کی بہتری کے لیے راہ ہموار کی۔ انھوں نے واشنگٹن اور ہوانا کے تعلق اچھے ہونے کے لیے اپنی دعائیں بھی اس عمل اور کیوبا کی حکومت کی نذر کر دیں ہیں اور کہا ہے کہ وہ اس برس ستمبر میں امریکہ جانے سے پہلے کیوبا آئیں گے۔
پوپ خود بھی لاطینی امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے رہنماؤں سے ان کے تعلقات بہتر رہے ہیں خواہ وہ دائیں بازو کے رہنما ہوں یا بائیں بازو کے۔ انھوں نے بار بار مطالبہ کیا ہے کہ کیوبا پر عائد امریکی پابندیاں ختم کی جائیں۔ اب انھوں نے راؤل کاسترو کی میزبانی بھی کر دی ہے یا انھیں اپنے پاس آنے پر مجبور کر دیا ہے جس سے ویٹیکن اور کیوبا کے تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ لہذا حیرت کی بات نہیں کہ مسٹر کاسترو رومن کلیسا میں عشائے ربانی میں شرکت پر غور کر رہے ہیں۔
روم میں بی بی سی کے نامہ نگار ڈیوڈ ولی کہتے ہیں کہ ویٹیکن میں خفیہ مذاکرات کے دوران امریکہ اور کیوبا میں تعلقات کی بحالی پر اتفاق، پوپ فرانسس کے لیے ایک بڑا سفارتی کارنامہ ہے۔
کیوبا میں انیس سو انسٹھ میں انقلاب کے بعد امریکہ نے ہوانا پر تجارتی پابندیاں عائد کر دی تھیں جو اس نے گزشتہ سال کے آخر سے ہٹانا شروع کر دی ہیں۔
’پاپائے روم، رومن کیھتولک کے یسوعی فرقے سے ہیں اور ایک طرح سے میں بھی اسی فرقے کا ہوں۔ میں نے یسوعی سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے‘
اتوار کو پوپ سے پچاس منٹ کی نجی ملاقات کے بعد مسٹر کاسترو نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ’پاپائے روم، رومن کیھتولک کے یسوعی فرقے سے ہیں اور ایک طرح سے میں بھی اسی فرقے کا ہوں۔ میں نے یسوعی سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے۔‘
یہ عندیہ دیتے ہوئے کہ ان کے چرچ لوٹنے کے امکان موجود ہیں راؤل کاسترو نے کہا ’میں جو کہتا ہوں وہ کرتا ہوں۔‘
مسٹر کاسترو اور ان کے بھائی اور انقلابی رہنما فیڈل کاسترو دونوں رومن کیتھولک ہیں لیکن کیوبا کے انقلاب کے بعد کلیسائی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ فرانسس کیوبا کا سفر کرنے والے تیسرے پوپ ہوں گے۔ ان سے پہلے جان پال دوئم نے انیس سو اٹھاسی میں اور پوپ بینیڈکٹ سولہ نے دو ہزار بارہ میں کیوبا کا دورہ کیا تھا۔